recent posts


1. سچل سرمست کا نام عبدالوہاب ابن صلاح الدین ہے آپ فاروقیہ قریشی خاندان کے چشم و چراغ تھے آپ سترہ سو انتالیس میں خیرپور ریاست کے ایک گاؤں درازہ شریف میں پیدا ہوئے ۔آپ کا اصل نام عبد الوہاب تھا لیکن آپ کی سچ گوئی کو دیکھتے ہوئے لوگ آپ کو سچل سرمست کہتے تھے۔

2. سندھی عربی اور فارسی کی تعلیم خانگی طور پر حاصل کی اس کے بعد آپ کو مدرسہ میں داخل کر دیا گیا بارہ برس کی عمر میں کلام الہی حفظ کرلیا اور چودہ برس کی عمر میں عربی فارسی علم و ادب میں کامل دسترس حاصل کرلی.

3. فارغ التحصیل ہونے کے بعد سچل سرمست خواجہ عبدالحق سے بہت ہوکر تصوف اور معرفت کے رموز سے آگاہ ہوئے جس پر اکثر وجدانی کیفیت طاری رہتی تھی اور اسی عالم میں آپ حسین ابن منصور حلاج کی طرح انا الحق کے نعرے لگاتے رہتے تھے جس کا مطلب ہے آپ وحدت الوجود کے قائل تھے جس کا مطلب ہے کائنات میں جو کچھ ہے وہ تمام حق ہےاور اس کے مختلف روپ اور مظاہر اس حقیقت کے رنگ برنگے روپ ہیں اللہ تعالی کے نور سے زمین و آسمان منور ہیں.

4. سچل سرمست سراپا عشق دے سچل نے انسان کو احساس دلایا کہ وہ جہالت عزت کی راہ پر چلنے کے باعث رحمت کی حقیقت اور اپنی عظمت کو بھلا بیٹھا ہے اس لئے ظلمت اور غلامی کے گہرے غاروں میں گرا پڑا ہے آپ نے انسانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا تمہیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تم عام نہیں ہوں ہو بلبل کی طرح باغ میں چھپ کر بول رہے ہو مٹی سے بنے ہوئے تیرے وجود کے سامنے فرشتوں نے سجدے کئے تم احد سے عبدکہلائے نہ تم بے ترتیب ہستی ہو .
5.شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد سچل سرمست کو سندھی ادب میں بڑا اعلیٰ مقام حاصل ہے سچل سرمست شاعر ہفت زباں نہیں پورے پاکستان میں شاعری کسی اور شاعر نے ہم زبانوں میں شاعری کی ہو ۔

6. کیف و سرور و مستی کے عالم میں آپ کی زبان سے ایسے الفاظ ادا ہو جاتے تھے جو شریعت کے خلاف تھے اس بنا پر لوگوں نے آپ پر کفر و الحاد کے الزامات عائد کیے تاہم آپ شریعت کی مکمل پابندی پر اعتقاد رکھتے تھے اور شریعت پر عمل پیرا رہنے کی تلقین بھی کرتے تھے.

7. سچا صرف موسیقی کے دلدادہ تھے طنبورہ اٹھا کر کھانا کھاتے تھے حالت یہ ہوتی تھی کہ تار چھڑتے ہیں بے خودی طاری ہو جاتی تھی باہر کھڑے ہوجاتے تھے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے اسی کیفیت میں آپ کی زبان پر اشعار جاری ہوجاتے تھے جو حاضر عقیدت مند قلمبند کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ یہ شعر میں شوق اور وارفتگی کا ایسا گہرا تاثر اور عشق حقیقی کا والہانہ انداز ہے.
8. سچل سرمست نے سندھ کی روایتی اور کلاسیکی شاعری کے علاوہ غزل مثنوی اور کئی دوسری اصناف شاعری کو بھی بڑی خوبصورتی سے سندھی لب و لہجے میں ڈھالا ہے انہوں نے ہر زبان میں اپنی نوعیت نہ کا جادو جگایا ہے جس کے الفاظ اور اسالیب اظہار پر ان کو قدرت حاصل تھی.
9. سندھی سرائیکی اور اردو کے علاوہ ہندی عربی فارسی اور پنجابی سے بھی ان کو تعلق خاطر تھا اس لیے عموماً شاعر ہفت زبان کہلاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مقامی رنگ آمیزی اور اپنی زمین وطن کی تہذیبی اور ثقافتی دلاویزیوں کے لحاظ سے سندھی اور سرائیکی کلام کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کے طور پر حق دار بھی تھے.
10. سچل سرمست کی شادیوں خواجہ عبدالحق کی صاحبزادی سے ہوئی جن سے آپ کی ایک اولاد نرینہ ہوئی جو کچھ ماہ بعد ہی انتقال فرما گئی شادی کے دو سال کے بعد ہی آپ کی زوجہ کا بھی انتقال ہو گیا تھا اٹھارہ سو ستائیس میں آپ کا انتقال ہوا اور درازہ شریف میں ہی آپ کا مزار مبارک واقع ہے۔
Reviewed by Urdu Essay for All on جون 15, 2022 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.